دس عادات اپنا کر رہیں صحت مند اور خوش باش
Contributed by idlcare.com
کیا آپ صحت مند اور خوش باش زندگی چاہتے ہیں؟ کیونکہ وہ مقولہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ صحت ہی دولت ہے جس کے بغیر زندگی میں خوشی کا تصور ممکن ہی نہیں۔
تو نئے سال پر خود ایسے عہد نہ کریں جنھیں آپ پورا کر ہی نہیں سکتے بلکہ بس اپنے طرز زندگی میں چند چھوٹی تبدیلیاں لاکر آپ اپنی صحت، مزاج، توجہ کو بہتر بنا کر فٹ زندگی کا مزہ لوٹ سکتے ہیں۔
کھڑے رہنے کی عادت اپنا کر
اگر آپ نے یہ جملہ سنا نہیں تو جان لیں کہ بیٹھنے کی عادت آپ کو آہستہ آہستہ مار دیتی ہے۔ مختصر مدت کے لیے کرسی سے چپکے رہنا آپ کے پٹھوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ جسم میں دوران خون کی گردش کو متاثر کرتی ہے اور جسمانی ورم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ طویل المدتی بنیادوں پر بات کی جائے تو یہ طرز زندگی موٹاپے کا شکار تو بناتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ امراض قلب اور ذیابیطس جیسی جان لیوا بیماریاں بھی جسم کا حصہ بن جاتی ہیں اور کینسر کی مختلف اقسام بھی آپ کو دبوچ سکتی ہیں۔
کولڈ ڈرنکس سے دوری
انسانی دماغ ہمیشہ سے ہی مٹھاس کا دیوانہ رہا ہے مگر ماضی میں کبھی ہمارے آباء و اجداد کو بہت زیادہ چینی اور کیلوریز سے بھرپور کولڈ ڈرنکس جیسی چیز نہیں ملی تھی۔ اس کا بہت زیادہ استعمال موٹاپے کا شکار کرتا ہے جبکہ اس سے پیدا ہونے والا کیمیائی ردعمل دماغ کو بتاتا ہے کہ ہم کچھ اچھا کر رہے ہیں حالانکہ ایسا ہوتا نہیں، اس کے نتیجے میں چینی کا استعمال ایک عادت بن جاتی ہے جسے ترک کرنا ناممکن سا ہوجاتا ہے جو ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور فالج وغیرہ کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔
گھر سے باہر نکلنا
گھروں اور دفاتر سے کچھ دیر کے لیے باہر نکلنا مزاج کو خوشگوار بنانے اور تخلیقی سوچ کو جلا دینے کا تیز رفتار طریقہ ہے۔ گھر سے چہل قدمی کو معمول بنالینے سے ناصرف یاداشت مضبوط ہوتی ہے بلکہ اس سے خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔
کھڑکی کے قریب رہنا
کھڑکی کے قریب باہر کا نظارہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ عادت آپ کے مزاج کو بھی خوشگوار بناتی ہے اور دن بھر دماغ کو چوکس رکھنے اور رات کو جلد سونے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ قدرتی روشنی میں رہنے سے خاص طور پر دن کے آغاز میں، جسم کی اندرونی گھڑی کو درست طریقے سے کام کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جن افراد کے دفاتر کھڑکیوں سے محروم ہوتے ہیں انہیں راتوں کو سونے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے اور اوسطاً ہر ماہ پندرہ گھنٹے کی نیند سے محروم رہتے ہیں۔
شکرگزاری کا تحریری اظہار
سننے میں عجیب تو لگے گا مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکر کا تحریری اظہار کسی بھی فرد کے مزاج اور رشتوں پر حقیقی اور دیرپا مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ حالیہ تحقیقی رپورٹس کے مطابق ہفتہ وار شکرگزاری کا تحریر کی صورت میں اظہار انسان کے اندر امید کی کرن جگاتا ہے اور زندگی پر اطمینان بڑھاتا ہے۔
اپنے مقصد کو تحریر میں لانا
مثبت سوچ طاقتور ہوسکتی ہے مگر اپنے تصور کو خیال کی حد تک رکھنا مقصد کے حصول کے لیے کافی ثابت نہیں ہوتا۔ ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اپنے مثبت خیالات اور اپنے ذاتی رویے کے بارے میں لکھنا زندگی کے لیے طے کردہ مقاصد کا سب سے بہترین راستہ ثابت ہوسکتا ہے جس سے صحت کی بہتری کا راستہ بھی کھل جاتا ہے۔
گوشت کی جگہ پھلیوں، بیجوں یا اجناس کو ترجیح دینا
گوشت کو مکمل طور پر غذا سے نکال دینا بھی انتہاپسندانہ اقدام ہوگا بس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس کا استعمال کم ہو۔ کم گوشت کا استعمال زندگی کی مدت میں اضافہ کردیتا ہے اور متعدد خطرناک امراض جیسے ذیابیطس ٹائپ ٹو، موٹاپے، میٹابولک سینڈروم، فشار خون اور کینسر وغیرہ سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
لفٹ کی جگہ سیڑھیوں کا استعمال
اپنے دفاتر یا اپارٹمنٹس بلڈنگ میں لفٹوں میں ہجوم کا حصہ بننے کی بجائے سیڑھیوں کا راستہ اپنائیں جو کہ ایک ورزش سے کم نہیں۔ سیڑھیاں چڑھنے کا دورانیہ چاہے چند منٹ ہی کیوں نہ ہو اس سے جسم کو متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کچھ منٹ کی یہ ورزش پورا دن جسم کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور اس سے انہیں وہ فوائد بھی حاصل ہوجاتے ہیں جو لوگ عام طور پر روزانہ آدھے گھنٹے تک ورزش کرکے حاصل کرتے ہیں۔
پودوں کو گھر کا حصہ بنانا
کچھ پھول اپنے رہائشی کمرے میں لائیں یا اپنی میز پر کوئی پودا رکھ دیں۔ آپ کے گھر یا دفتر میں سبزے کی یہ معمولی سی جھلک مزاج کو خوشگوار بنانے کے ساتھ جذباتی طور پر مستحکم شخصیت بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ پودے گھر کی چاردیواری میں موجود مضر صحت آلودگی کو بھی جذب کرلیتے ہیں جو گلے کے راستے آپ کے پھیپھڑے میں جاکر تباہ کن اثرات کا سبب بن سکتی ہے۔
کمپیوٹر اسکرین سے کچھ دیر کی دوری
کمپیوٹرز، اسمارٹ فون یا ٹیبلیٹ کی اسکرینوں کو ہر وقت گھورتے رہنا آنکھوں کی نمی کو خشک کرنے کا باعث بن جاتا ہے اور لوگ آنکھوں کے مختلف امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کمپیوٹر یا ٹیبلیٹ کو دیکھتے ہوئے ہم نا صرف بہت کم پلکیں جھپکا رہے ہوتے ہیں بلکہ ہماری آنکھیں بھی زیادہ پھیلی ہوئی ہوتی ہیں جس سے نمی بہت تیزی سے خشکی کا شکار ہوجاتی ہے۔